پاکستان میں اسلامی نظام کا واحد راستہ

اللہ عزوجل اور اُس کے رسول ﷺ سے اعلانِ جنگ، امریکہ کی وفاداری میں لاکھوں پاکستانیوں کا قتلِ عام،پاکستان کی شہ رگ کشمیر  کا سودا، رشوت  اور سفارشی کلچر کا فروغ ، عدالتوں کی بدحالی، سیاست کی یرغمالی،  اخلاقی اقدار کی پستی، مہنگائی کے پہاڑ ، فلسطینی معاملے میں مجرمانہ خاموشی اور درجنوں دیگر مسائل پرکشمیر سے کراچی اور لاہور سے کوئٹہ، مدارس سے مساجد اور سکول سے کالج،  صحافی سے مصنف  اور اینکر سے یوٹیوبر، الغرض سوائے حکمران طبقے کے ہر پاکستانی اس وقت خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہرشخص اپنی جگہ، اپنے انداز میں فریاد کررہا ہےاور ملک کاطبقہ اس وقت برسرِ احتجاج ہے۔ اس ملک گیر فریاد و احتجاج کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جون تک نہیں  رینگی اوروہ اپنی ظالمانہ پالیسیوں سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک گیر احتجاج  منظم نہیں ہے اورمنقسم ہونے  کی وجہ سے بے اثر ہے۔ اسے بااثر بنانے کے لیے ہمیں ایک جھنڈے تلےاور کسی امیر کی قیادت میں جمع ہونا ہوگا، جیسے 2017ء میں محافظینِ ختم ِ نبوت، علامہ خادم رضوی کی قیادت میں جمع ہوئے،پھر ڈٹ گئے اور صرف آٹھ شہادتیں دے کر ختمِ نبوت پر تاریخی پہرہ دیا۔
درحقیقت یہ کتاب  ، خونِ دل سے لکھا میراخط ہے ،  ہر محبِ اسلام اور محبِ وطن پاکستانی  کے نام  کہ آؤ مل کر فریاد و احتجاج کریں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر لکھی یہ تحریر،عرضی ہے ہر بااثر پاکستانی کے نام  کہ اٹھو،اپنے فرض کو پہچانو اور لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرو۔ملک میں چھائی مایوسی کی فضا میں اگر آپ ’’میری پکار‘‘ پر لبیک کہتے ہیں  تو مجھے امید ہے کہ بغیر کسی خون ریزی کے حکمران  طبقہ یا تواپنا قبلہ درست کرلےگا یا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔بفرضِ محال اگرپاکستان اور اُمّت کے روشن  مستقبل کے لیے چند سو لوگوں کی قربانیاں دینی بھی پڑیں تو یقین مانیے کہ
یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔یہ کتاب لکھ کر سب سے پہلے اس مشن کے لیے میں نےاپنی جان قربانی کے لیے پیش کردی ہے۔
Download Pdf Click here

View on Daraz
Guaranteed Safe Checkout

Description

ممکن ہے کہ زیر نظر کتاب  جدید دور کے قلم کاری کے اصولوں پر پورا نہ اُترتی ہواس لیے کہ راقم الحروف نے اس پہلو کو ایک حد سے زیادہ ملحوظ نہیں رکھا۔ نامور لکھاری بننا یا مقبول کتاب لکھنا میرا مقصد نہیں۔  میرا مقصد  اور طریقہ اس شخص کی مانند ہے جس کے گھر کو چوروں نے گھیر رکھا ہو اور وہ خوف سے اور جلدی میں پولیس کو پکارتا ہے۔ ایسے میں نہ اسے اپنے الفاظ کے چناؤ کا دھیان ہوتا ہے  اور نہ ہی لہجے کا بلکہ اس کا مقصد پولیس کو فوری اطلاع دینا ہوتا ہے۔ اور اگر پولیس اس کی چیخ وپکارپر بروقت کارروائی کر کے چوروں کو گرفتار کر لے تو  اس کی پکار ثمر بار رہی، چاہے اس نے کسی بھی زبان میں اور کسی بھی انداز سے پولیس کوپکارا ہو۔لیکن ایسی حالت میں اگر کوئی خوبصورت الفاظ کے چناؤ اور بہترین اندازِ پکار میں وقت ضائع کردے اورچور اپنا کام کر چکیں تو پکارنے والا پولیس والوں کو شاید اپنے خوبصورت الفاظ اوراندازِ بیان سےمتاثر تو کردے مگر اس کا  اصل مقصد بے حاصل ہی رہے گا۔
راقم الحروف کی اس  متزلزل پکار کااصل مقصد بھی دین کے محافظوں کو جلدی سے بیدار کرنا ہے کیونکہ تھوڑی اور تاخیرہو گئی تو بات ہاتھ سے نکل جائے گی، چور سب کچھ لوٹ چکے ہوں گے اور یہ چمن اسلام کے بار وثمر سے بالکل محروم ہو چکا ہو گا۔ پھر کھیت کے چگ جانے پر پچھتانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
اس کتاب کا پسِ منظر یہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں مجموعی طور پر سیاسی بحران، اس میں مذہبی جماعتوں کے لیے آگے آنے کےبھرپور مواقع  اور مذہبی جماعتوں کے جذبے اور تیاری کو مدِنظر رکھتے ہوئے، مثبت نتائج کے لیے میں  کافی پراُمید تھا۔ 8 فروری 2024ءکی شام پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد میڈیا پر نتائج آنا شروع ہوئے تو اکثر حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف پہلے نمبر پر جارہی تھی اور مذہبی جماعتوں کے بھی نتائج بہتر آ رہے تھے۔لیکن اس کے بعد اکثر حلقوں کے نتائج روک دیے گئے اورعوام میں پہلے سے ہی جو ایک تصوّر پایا جارہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نون کو حکومت میں لایا جا رہا ہے، اسی کا عکس نظر آنے لگا۔ پاکستان تحریک انصاف ، جو اکثریت کے ساتھ جیت رہی تھی ، اس کا پلڑا آہستہ آہستہ ہلکا ہونے لگا اور نون لیگ کا سورج طلوع ہوتا نظر آنے لگا۔  دوسری طرف تمام مذہبی جماعتوں کا راستہ بالکل کاٹ دیا گیا۔ ان حالات کو دیکھ کر ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کسی نے الیکشن کمیشن کو ایک فہرست دے دی ہو کہ ان ان لوگوں کو جتوا دو۔ چنانچہ ان میں سے جو خود جیت رہے تھے ان کو  تحفظ دیاگیا اور جو ہار رہے تھے انہیں سہارا دیا گیا۔ مذہبی جماعتوں کےبارے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس سادہ سا جملہ ارشاد فرما دیا گیا کہ ان میں سے کوئی نہ جیتنے پائے،چنانچہ ویسا ہی ہوا۔ تاریخ کو دُہراتے ہوئے پاکستان ایک بار پھر ان ظالموں کے ہاتھ میں دے دیا گیا جو عوام کو کند چھری سے ذبح کرتے ہیں اور پھر ان کی چیخ و پکار پر قہقہےلگا کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ملک و ملت کا یہ غم دل میں لیے 10 فروری  کی صبح میں نےاس کتاب کا آغاز کیا،  باوجود اس کے کہ میری ایک اور کتاب بالکل اختتامی مراحل میں تھی اور اس کے علاوہ آٹھ  دیگرموضوعات پہلے سے ہی میری فہرست میں موجود تھے جن پر میں نے کام کرنا تھا۔ مگرحالیہ الیکشن نے مجھے اس بات پر مجبور کردیا کہ تمام کاموں کو ترک کر کے نفاذِ شریعت کی راہوں اور رکاوٹوں پر بات کی جائے۔ دوسرا یہ کہ کہیں وقت کے ساتھ میرےجذبات ٹھنڈے نہ پڑجائیں اور اسلام پسند بھی وقت گزرنے کے ساتھ مفاہمت کا شکار  ہو کر دوبارہ  جمہوری نظام سے امیدیں نہ لگا بیٹھیں۔پس فقیر کی یہ ادنی ٰسی کاوش، دین پسندوں کے لیے ایک روڈ میپ ہے جو پاکستان میں اسلامی نظام کے لیے درست سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔
راقم الحروف نے اس یزیدی نظام کی بیعت سے انکار کردیا ہے ،چنانچہ ممکن ہے کہ اس راہ میں مجھےکسی موڑ پر شہید کر دیا جائے۔ اگر اللہ ربّ العالمین نے یزید کے سپاہیوں کا ہاتھ مجھ سے روک بھی دیاپھر بھی میں نے اپنے جان و مال  کا سودا اللہ سے کرلیا ہے، جس پر اجر ِعظیم کا وعدہ اُس نے تورات، انجیل اور قرآن مجیدمیں کیا ہے۔فرمایا:
“حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں سے اُن کے نفس اور اُن کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ اُن سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناوٴ اپنے اُس سودے پر جو تم نے اللہ سے کر لیا ہے۔یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔”(التوبہ:111)
اب جسے اللہ کے درج بالا وعدے پر پختہ یقین حاصل ہو جائےتووہ اپنی جان اوراپنے مال اس کی راہ میں قربان کردے۔
(اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم اور اسکی توفیق سے فقیر نے گوناگوں مصروفیات کے باوجودیہ کتاب دو ماہ کےقلیل عرصہ میں مکمل کی۔)